Friday, March 29, 2019

NZ Shootings: What is the alternative to violence?







شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



 نیوزی لینڈ کی مساجد میں پچاس کے قریب معصوم لوگوں کو بے رحمی سے قتل کرنے والا شخص لکھتا ہے کہ تارکین وطن کو مغربی دنیا سے بھگانے کا صرف ایک راستہ ہے، اور وہ راستہ ہے تشدد کا۔

اس شخص کو یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آبادی مستقل بڑھتی جائے گی اور ایک دن یہ لوگ اکثریت میں ہوں گے اور یورپی نژاد لوگ، یعنی اس قاتل کے اپنے لوگ، اقلیت بن جائیں گے اور ملک ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

اور اس قاتل کے اس خوف کو تاریخ صحیح ثابت کرتی ہے۔ اس قاتل کے آبا و اجداد نے بالکل اسی طرح آسٹریلیا کو اپنے قبضے میں لیا تھا اور پرانی مقامی آبادی کو اقلیت بنا دیا گیا۔

اس قاتل کا یہ کہنا نظر آتا ہے کہ اگر اس کے آبا و اجداد نے ماضی میں دوسرے لوگوں کے خلاف تشدد کا راستہ اپنایا، تو آج بھی تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔



ہمیں اس سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ سولھویں، سترہویں، اور اٹھارویں صدی میں یورپی لوگوں نے شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادیوں کے خلاف تشدد کا جو راستہ اپنایا وہ سراسر غیر اخلاقی تھا۔ برا ہوا کہ اس پرانے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے اور اس ظلم کی داستان دنیا کے دوسرے لوگوں تک بروقت نہ پہنچ سکی۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ یورپی جن نئی جگہوں پہ گئے وہاں کوئی لکھا قانون موجود نہیں تھا۔

مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج ہرجگہ ایسے عمرانی معاہدے موجود ہیں جو ملک کا منشور اور قوانین کہلاتے ہیں۔ اور کوئی عمرانی معاہدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس معاہدے کے تحت رہنے والا ایک شہری دوسرے شہری پہ تشدد کرے۔

سفید فام وطن پرستوں کی طرف سے کی جانے والی تشدد کی کاروائیاں ہرگز نئے تارکین وطن کا راستہ نہیں روکیں گی۔ ان پرتشدد وارداتوں سے الٹا وطن پرستوں کی تحریک بدنام ہوگی





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

No comments:

Post a Comment