Monday, April 24, 2023

Hindi/Urdu: Science and beliefs are two different things






شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔







میں نے ایک دفعہ کہیں لکھا تھا کہ ہمارا ایمان پرانے دور کے مسلمانوں سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ہم نے اپنی مقدس ہستیوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، اس کے باوجود ہم نسل در نسل بتائی گئی باتوں پہ یقین کرتے ہیں۔ ایک صاحب کو میری یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے جواب دیا کہ مذہبی اعتقادات اس سلسلے میں منفرد نہیں ہیں، ہم میں سے کسی نے نیوٹن کو نہیں دیکھا مگر اس کے باوجود نیوٹن کے بتائے ہوئے قوانین پہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ واضح کیا جائے کہ سائنس اور اعقادات میں کیا فرق ہے۔



یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سائنس میں عزت و احترام کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس کا تعلق مکمل دیانت داری، بحث اور نکتہ چینی سے ہے۔ یہاں ہر طرح کا سوال پوچھنے کی مکمل اجازت ہے۔ ہر سائنسی تھیوری کو شک کی نظر سے دیکھنے کی مکمل اجازت ہے۔



سائنس پڑھنے والے نیوٹن کی عزت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آنکھیں بند کر کے نیوٹن کے قوانین کو سچ مانتے ہیں۔ وہ نیوٹن کی عزت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ حقیقی دنیا میں انہیں یہ قوانین سچے اور کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نیوٹن کے مرنے کے دو سو سال بعد انسان خلا میں راکٹ بھیجنے کے قابل ہوا۔ اور یہ راکٹ نیوٹن کے قوانین حرکت کی مدد سے فراری رفتار معلوم کر کے، خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ یہ قوانین حرکت نیوٹن نے دریافت کیے تھے۔ اگر راکٹ خلا میں بھیجنے والوں کو نیوٹن کا نام نہ بھی معلوم ہوتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ اصل سچائی تو ان الجبرائی مساوات میں تھی جو قوانین حرکت کے مطالعے سے اخذ کی گئیں تھیں۔





اعتقادات کے مقابلے میں سائنس خود کار ہے، یہ اپنی سمت خود صحیح کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی پرانی سائنسی تھیوری کو ٹھکرا کر کوئی نئی سائنسی تھیوری پیش کی جائے تو کوئی کسی قسم کا گلہ نہیں کرتا۔

جب آئن اسٹائن نے یہ خیال پیش کیا کہ کسی جسم کی رفتار اگر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جائے تو اس جسم پہ نیوٹن کے دریافت کیے گئے قوانین حرکت کام نہیں کریں گے، تو کسی نے اس بات کا برا نہیں منایا۔ کوئی ناموس نیوٹن ریلی نہیں نکالی گئی۔

سائنسی طریقہ کار کے جڑ پکڑنے سے پہلے یہ دنیا ایک جادوئی جگہ تھی جہاں کوئی توجیہہ نہ ملتی تھی کہ یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے۔ سائنسی طریقہ کار کی دریافت کے بعد اب یہ دنیا وجہ اور نتیجے کی دنیا ہے۔ اب کسی بات کو بھگوان کی مرضی کہہ کر نہیں ٹالا جاسکتا۔ کچھ عرصے پہلے انڈونیشیا میں لائن ائیر کا ایک جہاز گرا۔ انڈونیشیا ایک مسلمان آبادی والا ملک ہے مگر اس حادثے کے بعد وہاں بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ وہ جہاز کیوں گرا۔ اس معاملے کو اللہ کی مرضی کہہ کر ختم نہیں کیا جارہا۔

سائنس کو کسی عقیدے سے کسی قسم کی توثیق کی ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی لوگ مستقل سائنس کی مدد سے اپنے عقیدے کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ اس دنیا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو نظر نہیں آتی، سنائی دیتی ہے، جسے آپ سونگھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، تو آپ سائنس کی مدد سے اس دنیا کو تسخیر کرنے کی کوشش کیجیے۔ اور وہ باتیں جو حواس خمسہ سے بالاتر ہیں ان کے لیے اپنے مذہبی عقائد پہ ڈٹے رہیے۔






کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔