Friday, March 29, 2019

NZ Shootings: What is the alternative to violence?







شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



 نیوزی لینڈ کی مساجد میں پچاس کے قریب معصوم لوگوں کو بے رحمی سے قتل کرنے والا شخص لکھتا ہے کہ تارکین وطن کو مغربی دنیا سے بھگانے کا صرف ایک راستہ ہے، اور وہ راستہ ہے تشدد کا۔

اس شخص کو یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آبادی مستقل بڑھتی جائے گی اور ایک دن یہ لوگ اکثریت میں ہوں گے اور یورپی نژاد لوگ، یعنی اس قاتل کے اپنے لوگ، اقلیت بن جائیں گے اور ملک ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

اور اس قاتل کے اس خوف کو تاریخ صحیح ثابت کرتی ہے۔ اس قاتل کے آبا و اجداد نے بالکل اسی طرح آسٹریلیا کو اپنے قبضے میں لیا تھا اور پرانی مقامی آبادی کو اقلیت بنا دیا گیا۔

اس قاتل کا یہ کہنا نظر آتا ہے کہ اگر اس کے آبا و اجداد نے ماضی میں دوسرے لوگوں کے خلاف تشدد کا راستہ اپنایا، تو آج بھی تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔



ہمیں اس سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ سولھویں، سترہویں، اور اٹھارویں صدی میں یورپی لوگوں نے شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادیوں کے خلاف تشدد کا جو راستہ اپنایا وہ سراسر غیر اخلاقی تھا۔ برا ہوا کہ اس پرانے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے اور اس ظلم کی داستان دنیا کے دوسرے لوگوں تک بروقت نہ پہنچ سکی۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ یورپی جن نئی جگہوں پہ گئے وہاں کوئی لکھا قانون موجود نہیں تھا۔

مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج ہرجگہ ایسے عمرانی معاہدے موجود ہیں جو ملک کا منشور اور قوانین کہلاتے ہیں۔ اور کوئی عمرانی معاہدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس معاہدے کے تحت رہنے والا ایک شہری دوسرے شہری پہ تشدد کرے۔

سفید فام وطن پرستوں کی طرف سے کی جانے والی تشدد کی کاروائیاں ہرگز نئے تارکین وطن کا راستہ نہیں روکیں گی۔ ان پرتشدد وارداتوں سے الٹا وطن پرستوں کی تحریک بدنام ہوگی





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Thursday, March 28, 2019

NZ Shootings: Blame the British Empire.



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔

 

افریقہ سے نکلنے کے بعد انسان مستقل حرکت میں ہے۔ مگر آج کے عالمی میڈیا کے اثر سے فی زمانہ لوگوں اور گروہوں کی نقل مکانی زیادہ آسانی سے سب کو نظر آتی ہے اور اس متعلق بات بھی ہوتی ہے۔

سولھویں صدی میں جب یورپ کے لوگ شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ پہنچے تو ان جگہوں پہ پہلے سے بسنے والے لوگ ان نوواردوں کو دیکھ کر ٹھٹھکے اور پھر رفتہ رفتہ مقامی آبادی کا صفایا ہوتا گیا، حالانکہ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کے باوجود مقامی لوگوں نے اپنی بقا کی جنگ خوب لڑی۔ مگر وہ اخبار، ٹی وی، اور انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے اس جدوجہد کی کہانی دبی رہ گئی۔

کل کر طرح آج بھی لوگ دو وجوہات سے نقل مکان کرتے ہیں۔ اول۔ معاشی وجہ سے، اور دوئم اپنی جان بچانے کے لیے کہ جب ان کے اپنے وطن میں جنگ یا انتشار ہو۔ اور نقل مکانی کے لیے تیار یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ وہ لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں امن و امان ہو، اور جہاں وہ اپنی روزی کا انتظام کرسکیں۔

نقل مکانی کے لیے جگہ چنتے وقت دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس نئی جگہ پہ جانا کتنا آسان ہے، اور آیا اس نئی جگہ پہ زبان کا بہت بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔



ان دو نکات کو سامنے رکھیں تو آپ جان سکتے ہیں کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک سے اٹھ کر لوگ کہاں جانا چاہیں گے۔



مثلا نکاراگوا۔ نکاراگوا سے اٹھ کر لوگ جنوب میں ہسپانوی بولنے والے کسی امیر ملک جانا چاہیں گے۔ اور جو زیادہ دلیر ہیں وہ شمال کی طرف چلیں گے کہ کسی طرح امریکہ پہنچ کر وہاں کی بڑی ہسپانوی آبادی میں ضم ہوجائیں۔



مالی۔ مالی کے لوگ قریب ترین فرانسیسی بولنے والے ملک جانا چاہیں گے، اور اگر ممکن ہو تو فرانس پہنچنا چاہیں گے۔

انگولا۔ انگولا کا تارک وطن پرتگال جانا چاہے گا اور اگر پرتگال جانا مشکل ہو تو وہ قریب ترین جنوبی افریقہ پہنچنا چاہے گا۔



قصہ مختصر یہ واضح ہے کہ یورپی نوآبادیاتی تجربے کے بعد افریقہ، ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ کے لوگوں کو اپنے اپنے نوآبادیاتی آقائوں کی زبانوں سے آگہی ہوئی ہے اور اگر کسی وجہ سے یہ لوگ اپنا وطن چھوڑنا چاہیں تو یہ وہاں جاتے ہیں جہاں امن کے ساتھ خوشحالی ہو، اور وہ زبان بولی جاتی ہو، جس سے کہ یہ لوگ واقف ہیں۔



چنانچہ اگر آج امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کے کچھ لوگوں کو تارکین وطن سے چڑ ہے تو وہ اس صورتحال کا الزام ماضی کے برطانوی راج کو دیں، تارکین وطن کو نہیں۔



کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر
ملاقات ہوگی۔

Tuesday, March 26, 2019

NZ Shootings: Why are Muslims living in the western countries?



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد میں مسلمان گروہوں کا ردعمل کسی قدر حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔ پھر وہی پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں: مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے؛ ہم پرامن لوگ ہیں مگر ہمیں مارا جارہا ہے۔ اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برینٹن ٹیرنٹ کی تحریر غور سے پڑھیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس سفاک قاتل کے ذہن میں کیا خیالات پرورش پاتے رہے ہیں۔

یہ شخص مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں رہیں۔ اس شخص کو یہ تکلیف ہے کہ مسلمان اور دوسرے تارکین وطن اپنے اپنے ملک چھوڑ کر اس کے ملک میں کیوں آرہے ہیں۔

اور اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔

ہم مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے بہترین مذہب ہے؛ اسلام میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے؛ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اس بہترین نظام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں کو کیوں نہیں سنوار لیتے؟

وہ ایک بہتر جگہ کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

یقینا آج چند ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان اکثریت  کے باوجود  وہاں کے مسلمان اپنی مرضی سے اس جگہ کو اچھا بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ جنگ زدہ ممالک ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، صومالیہ، اور یمن۔

مگر مسلمان اکثریت والے دوسرے ممالک کے لوگوں کے پاس مغربی دنیا جانے کا کیا بہانہ ہے؟

وہ اچھی زندگی کی تلاش میں اسلامی مقامات مقدسہ کیوں نہیں جاتے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات میرے پاس نہیں ہیں۔ اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں تو برائے مہربانی مجھے ضرور بتائیے گا۔



اور آخر میں۔ کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔


Friday, March 22, 2019

Blasphemy in Bhawalpur




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



 عاشقان رسول اٹھ کھڑے ہوں۔ اب وقت جہاد آیا ہے۔



آج بات کریں گے بھاولپور میں ایک استاد کے اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعے پہ۔ یہ واقعہ یقینا توہین رسالت کی ایک واضح مثال ہے۔



کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کو ایک ایسی عدالت میں پیش کیا جائے جہاں آپ کا موقف بالکل نہ سنا جائے اور صرف دوسرے فریق کی بات سنی جائے؛ اور آخر میں دوسرے فریق کی بات سن کر آپ کا موقف جانے بغیر آپ کو جان سے مار دیا جائے؟

آج کے پاکستان میں توہین رسالت کے نام پہ ایسی ہی اندھی عدالت قائم ہے۔ توہین رسالت کے قانون کے عوامی نفاذ میں اب الزام ہی کافی ہے۔ دوسرے فریق کا موقف جاننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو توہین رسالت کا الزام لگائے، وہی فیصلہ کرے کہ الزام بالکل درست ہے اور موت کا فیصلہ دے، اور پھر وہی شخص جلدی سے ملزم کو موت کے گھاٹ اتار دے۔



شاید پاکستان میں رہنے والے کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہوا کہ کسی پہ توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے مار دینے سے دنیا میں اسلام کا نام روشن ہورہا ہے اور غیرمسلم خود بخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے۔

نہ صرف ان نام نہاد عاشقان رسول کی وجہ سے اسلام کا نام بدنام ہورہا ہے بلکہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے غیر مسلم ہماری مقدس ہستیوں کو یہ کہہ کر برا بھلا کہتے ہیں کہ

 یقینا یہ لوگ اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر ہی عمل کررہے ہیں۔



خدارا ایسا نہ کیجیے۔ اسلام کےدشمن مت بنیے۔ اپنے نبی کے پیغام سے بغاوت مت کیجیے۔ عاشق رسول بنیے، باغی رسول مت بنیے۔



میں آپ کو بتائوں کہ آپ اسلام کا نام کیسے روشن کرسکتے ہیں، اپنے نبی کے سامنے کیسے سرخ رو ہوسکتے ہیں۔

ہمارے نبی کو صفائی بہت پسند تھی۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے غلیظ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔

ایک آدھ جگہوں کو چھوڑ کر ہر شہر، ہر قصبے میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ گٹر کا پانی سڑکوں پہ بہہ رہا ہے۔ پورے ماحول میں بدبو پھیلی ہوئی ہے۔



 آپ اپنے محلے سے صفائی کا کام شروع کیجیے اور پورے ملک میں صفائی کی اس مہم کو آگے بڑھائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اس فعل سے دنیا کس طرح خود بخود اسلام کی طرف رجوع ہوتی ہے۔



اور جہاں تک بھاولپور کے واقعے کا تعلق ہے، مسلمانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ خطیب حسین اپنے فعل سے توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ گمراہ نوجوان ہماری، ہمارے مذہب کی، اور ہمارے نبی کی بدنامی کا ذریعہ بنا ہے۔ اس سفاک قاتل کو جلد از جلد توہین رسالت کے قانون کے تحت سزا ملنی چاہیے۔







کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔

==

NZ Shootings: Is violence the only way forward?






کرائسٹ چرچ کی مساجد میں پچاس کے قریب لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے شخص، برینٹن ٹیرنٹ کو آپ جاہل نہیں کہہ سکتے۔ اس شخص نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے اور یہ ان ممالک کے سیاسی حالات سمجھتا ہے۔



برینٹن ٹیرنٹ نے بہت سوچ سمجھ کر اس قتل عام کی منصوبہ بندی کی اور منصوبے کو اپنے انجام تک پہنچایا؛ اس نے اپنی منشا کے مطابق لوگوں کو جان سے مارا اور آخر میں خود ہلاک ہوئے بغیر پولیس کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گیا۔

اس شخص نے قتل عام کی جگہ چننے میں بھی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ آسٹریلیا میں آتشیں اسلحے سے متعلق قوانین سخت ہیں چنانچہ اس نے اپنے جرم کے لیے نیوزی لینڈ کا انتخاب کیا جہاں یہ خودکار آتشیں اسلحہ باآسانی خرید سکتا تھا۔

اور اس بات میں خود برینٹن ٹیرنٹ کے سمجھنے کے لیے ایک نکتہ موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ باہر کے لوگ کسی ملک کے سہل قانون کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایشیا کے تارکین وطن نیوزی لینڈ کے سہل قوانین کا فائدہ اٹھا کر وہاں پہنچے اور اس شخص نے دوسرے سہل قوانین کو فائدہ اٹھا کر ان تارکین وطن کے قتل عام کے لیے وہاں اسلحہ خریدا۔

لیکن یہ برینٹن ٹیرنٹ کی غلط فہمی ہے کہ اس قتل عام سے یا اس سے ملتے جلتے پرتشدد واقعات سے تنگ آکر تارکین وطن مغربی ممالک کا رخ کرنا بند کردیں گے۔ جنگ زدہ شام، عراق، یا افغانستان سے بھاگنے والے کے لیے اب بھی نیوزی لینڈ اس کے اپنے ملک سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

قتل عام سے پہلے جاری کرنے والی اپنی تحریر میں برینٹن ٹیرنٹ نے تارکین وطن کو حملہ آور لکھا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تارکین وطن اسلحے کے زور پہ نیوزی لینڈ میں اپنے قدم نہیں جما رہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلحے کے زور پہ کس نے شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ میں اپنے قدم جمائے تھے۔ جی ہاں، برینٹن ٹیرنٹ کے یورپی آبا و اجداد نے یہ کام کیا تھا۔ تو کیا اب برینٹن ٹیرنٹ کی منطق کے مطابق آسٹریلیا کے مقامی لوگوں کو یورپی حملہ آوروں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنی چاہیے؟ کیا نیوزی لینڈ کے مائوری لوگوں کا وہاں کے یورپی نژاد لوگوں کو مارنا چاہیے؟ کیا امریکہ کے سرخ ہندیوں کو تشدد کا ایسا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

نہیں، ہرگز نہیں۔

مغربی ممالک میں بسنے والے جن لوگوں کو نووارد تارکین وطن پسند نہیں ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے قانون ساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسے قوانین بنائیں جن سے نئے تارکین وطن کا راستہ روکا جاسکے۔ اور اگر ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ان کی بات نہیں سن رہے تو ان سفید فام وطن پرستوں کو ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں ان کے خیال کے لوگوں کی اکثریت ہو، اور پھر انہیں اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہرصورت، آپ جو چاہیں کرِیں مگر برائے مہربانی تشدد کا راستہ نہ اپنائیں کیونکہ قانون کسی شہری کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انتہائی غیراخلاقی حرکت ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اپنی سلامتی کو یقینی بنائیں مگر پھر اسی قانون کو توڑ کر دوسروں کو جانی نقصان پہنچائیں۔



اور آخر میں

کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔

NZ Shootings: The real story




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



پچھلے جمعے کے دن نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیاں، ڈانلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں جیت سے زیادہ اہم واقعات ہیں اور دہشت گردی کی یہ کاروائیاں عالمی سطح پہ نئی تبدیلیاں لانے کا امکان رکھتی ہیں۔



کیوں؟



اس لیے کیونکہ برینٹن ٹیرنٹ نامی دہشت گرد نے قتل عام شروع کرنے سے پہلے ایک تحریر کے ذریعے واضح کیا کہ وہ یہ انتہائی قدم اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوا ہے۔



اور آپ اس شخص کو جنونی،سفید فام نسل پرست، یا اسلام دشمن قرار دے کر، اس کی بات کو باآسانی رد نہیں کرسکتے۔ نہ یہ شخص جنونی ہے، نہ نسل پرست، اور نہ مسلمان دشمن۔



اس نے جو قتل عام کیا اس کے پیچھے اس کی ایک واضح سوچ ہے اور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مغربی ممالک میں بہت سے لوگ اس سوچ سے متفق نظر آتے ہیں۔



اس قاتل کا استدلال کیا ہے؟



اس شخص کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں غیر ملکی بھرے چلے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے دن بہ دن مقامی لوگوں کی آبادی کا تناسب کم ہورہا ہے۔ اور عنقریب یہ وقت آنے والا ہے جب مقامی لوگ، یورپی نژاد لوگ، جنہوں نے ان ممالک کو اپنے خون پسینے سے بنایا ہے، ان ممالک میں اقلیت بن جائیں گے۔



اس شخص کو یہ صورت حال گوارا نہیں ہے۔



اس شخص کو کسی دوسرے ملک کے شخص سے کوئی بغض نہیں ہے، اسے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے کوئی عناد نہیں ہے، بس یہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی جگہ رہیں اور وہاں سے اٹھ کر مغربی ممالک میں بسنے نہ آجائیں۔



اب آپ بتائیں کہ اس منطق میں کیا خرابی ہے؟



اگر جاپان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے کہ جس کی وجہ سے جاپانی اپنے ہی ملک میں اقلیت نہ بن جائیں، اگر چین یہ خواہش کرسکتا ہے کہ چین میں صرف چینی لوگ ہی اقتدار سنبھالیں، تو مغربی ممالک کے لوگ ایسی خواہش کیوں نہیں کرسکتے؟



میں سمجھتا ہوں کہ اس دلیل سے انکار ناممکن ہے۔ مگر ساتھ ہی تشدد کا وہ راستہ جو اس شخص نے چنا ہے اس پہ شدید احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ احتجاج مغربی ممالک کے لوگوں کو یہ سمجھا کر کیا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک کے قوانین تارکین وطن یا مسلمانوں نے نہیں بنائے ہیں۔ یہ قوانین مغربی ممالک کے لوگوں ہی نے بنائے ہیں۔ تارکین وطن صرف ان سہل قوانین کا سہارا لے کر مغربی ممالک پہنچ رہے ہیں۔



چنانچہ برینٹن ٹیرنٹ جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ تارکین وطن کو مارنے کے بجائے اپنے قانون ساز اداروں سے بات کریں اور ایسے قوانین بنائیں جن سے تارکین وطن کا راستہ روکا جاسکے۔



مگر یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں نسل پرست قوانین نہیں بنائے جاسکتے۔



اگر مغربی ریاستیں نسل پرست قوانین بنا کر تارکین وطن کا راستہ نہیں روک سکتیں تو برینٹن ٹیرنٹ جیسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کو جمع کر کے اپنے طور پہ ایک ایسی جگہ بنا لیں جہاں ترقی پذیر ممالک کے تارکین وطن نہ جاسکیں۔ ہم بھی دیکھیں کہ ان سفید فام قوم پرستوں کا یہ تجربہ کتنا کامیاب ہوتا ہے۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔

Thursday, March 21, 2019

The new writer: Writers have to become Vloggers



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔


پرانے دور کا لکھاری۔

وہ اپنے آپ کو پرانے دور کا لکھاری سمجھتا تھا اور شاید اب بھی سمجھتا ہے۔ اُس پرانے دور کے لکھنے والے جو اپنے آپ کو نمایاں کرنا معیوب خیال کرتے ہیں۔ مگر زمانہ بدل گیا ہے۔ اس دور میں صرف اُس کی بات سنی جائے گی جو سب کے سامنے آ کر، اپنی شکل سب کو دکھا کر، ایک ویڈیو کے ذریعے اپنی بات کہے گا۔ اب اُسے بھی اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ اب اُسے زمانے کے ساتھ چلنا ہوگا۔  نئی بات نامی یہ پروگرام سوچ میں اُسی یکسر تبدیلی کا نتیجہ ہے۔

سوشل میڈیا ہم پہ مستقل خیالات کی بارش کررہا ہے۔ یہ بارش مختلف تحاریر، تصاویر، اور ویڈیو کے ذریعے کی جارہی ہے۔ یہ لکھائیاں، یہ تصاویر، یہ ویڈیو ہمارا ذہن بناتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پہ جاری ان حملوں کا تجزیہ کیا جائے۔ ان کے بارے میں کھل کر بات کی جائے۔ اپنی زمین، اپنے لوگ نامی اس پروگرام میں یونہی کیا جائے گا۔



کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔