Friday, March 22, 2019

NZ Shootings: Is violence the only way forward?






کرائسٹ چرچ کی مساجد میں پچاس کے قریب لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے شخص، برینٹن ٹیرنٹ کو آپ جاہل نہیں کہہ سکتے۔ اس شخص نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے اور یہ ان ممالک کے سیاسی حالات سمجھتا ہے۔



برینٹن ٹیرنٹ نے بہت سوچ سمجھ کر اس قتل عام کی منصوبہ بندی کی اور منصوبے کو اپنے انجام تک پہنچایا؛ اس نے اپنی منشا کے مطابق لوگوں کو جان سے مارا اور آخر میں خود ہلاک ہوئے بغیر پولیس کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گیا۔

اس شخص نے قتل عام کی جگہ چننے میں بھی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ آسٹریلیا میں آتشیں اسلحے سے متعلق قوانین سخت ہیں چنانچہ اس نے اپنے جرم کے لیے نیوزی لینڈ کا انتخاب کیا جہاں یہ خودکار آتشیں اسلحہ باآسانی خرید سکتا تھا۔

اور اس بات میں خود برینٹن ٹیرنٹ کے سمجھنے کے لیے ایک نکتہ موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ باہر کے لوگ کسی ملک کے سہل قانون کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایشیا کے تارکین وطن نیوزی لینڈ کے سہل قوانین کا فائدہ اٹھا کر وہاں پہنچے اور اس شخص نے دوسرے سہل قوانین کو فائدہ اٹھا کر ان تارکین وطن کے قتل عام کے لیے وہاں اسلحہ خریدا۔

لیکن یہ برینٹن ٹیرنٹ کی غلط فہمی ہے کہ اس قتل عام سے یا اس سے ملتے جلتے پرتشدد واقعات سے تنگ آکر تارکین وطن مغربی ممالک کا رخ کرنا بند کردیں گے۔ جنگ زدہ شام، عراق، یا افغانستان سے بھاگنے والے کے لیے اب بھی نیوزی لینڈ اس کے اپنے ملک سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

قتل عام سے پہلے جاری کرنے والی اپنی تحریر میں برینٹن ٹیرنٹ نے تارکین وطن کو حملہ آور لکھا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تارکین وطن اسلحے کے زور پہ نیوزی لینڈ میں اپنے قدم نہیں جما رہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلحے کے زور پہ کس نے شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ میں اپنے قدم جمائے تھے۔ جی ہاں، برینٹن ٹیرنٹ کے یورپی آبا و اجداد نے یہ کام کیا تھا۔ تو کیا اب برینٹن ٹیرنٹ کی منطق کے مطابق آسٹریلیا کے مقامی لوگوں کو یورپی حملہ آوروں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنی چاہیے؟ کیا نیوزی لینڈ کے مائوری لوگوں کا وہاں کے یورپی نژاد لوگوں کو مارنا چاہیے؟ کیا امریکہ کے سرخ ہندیوں کو تشدد کا ایسا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

نہیں، ہرگز نہیں۔

مغربی ممالک میں بسنے والے جن لوگوں کو نووارد تارکین وطن پسند نہیں ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے قانون ساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسے قوانین بنائیں جن سے نئے تارکین وطن کا راستہ روکا جاسکے۔ اور اگر ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ان کی بات نہیں سن رہے تو ان سفید فام وطن پرستوں کو ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں ان کے خیال کے لوگوں کی اکثریت ہو، اور پھر انہیں اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہرصورت، آپ جو چاہیں کرِیں مگر برائے مہربانی تشدد کا راستہ نہ اپنائیں کیونکہ قانون کسی شہری کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انتہائی غیراخلاقی حرکت ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اپنی سلامتی کو یقینی بنائیں مگر پھر اسی قانون کو توڑ کر دوسروں کو جانی نقصان پہنچائیں۔



اور آخر میں

کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔

No comments:

Post a Comment