Thursday, March 28, 2019

NZ Shootings: Blame the British Empire.



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔

 

افریقہ سے نکلنے کے بعد انسان مستقل حرکت میں ہے۔ مگر آج کے عالمی میڈیا کے اثر سے فی زمانہ لوگوں اور گروہوں کی نقل مکانی زیادہ آسانی سے سب کو نظر آتی ہے اور اس متعلق بات بھی ہوتی ہے۔

سولھویں صدی میں جب یورپ کے لوگ شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ پہنچے تو ان جگہوں پہ پہلے سے بسنے والے لوگ ان نوواردوں کو دیکھ کر ٹھٹھکے اور پھر رفتہ رفتہ مقامی آبادی کا صفایا ہوتا گیا، حالانکہ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کے باوجود مقامی لوگوں نے اپنی بقا کی جنگ خوب لڑی۔ مگر وہ اخبار، ٹی وی، اور انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے اس جدوجہد کی کہانی دبی رہ گئی۔

کل کر طرح آج بھی لوگ دو وجوہات سے نقل مکان کرتے ہیں۔ اول۔ معاشی وجہ سے، اور دوئم اپنی جان بچانے کے لیے کہ جب ان کے اپنے وطن میں جنگ یا انتشار ہو۔ اور نقل مکانی کے لیے تیار یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ وہ لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں امن و امان ہو، اور جہاں وہ اپنی روزی کا انتظام کرسکیں۔

نقل مکانی کے لیے جگہ چنتے وقت دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس نئی جگہ پہ جانا کتنا آسان ہے، اور آیا اس نئی جگہ پہ زبان کا بہت بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔



ان دو نکات کو سامنے رکھیں تو آپ جان سکتے ہیں کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک سے اٹھ کر لوگ کہاں جانا چاہیں گے۔



مثلا نکاراگوا۔ نکاراگوا سے اٹھ کر لوگ جنوب میں ہسپانوی بولنے والے کسی امیر ملک جانا چاہیں گے۔ اور جو زیادہ دلیر ہیں وہ شمال کی طرف چلیں گے کہ کسی طرح امریکہ پہنچ کر وہاں کی بڑی ہسپانوی آبادی میں ضم ہوجائیں۔



مالی۔ مالی کے لوگ قریب ترین فرانسیسی بولنے والے ملک جانا چاہیں گے، اور اگر ممکن ہو تو فرانس پہنچنا چاہیں گے۔

انگولا۔ انگولا کا تارک وطن پرتگال جانا چاہے گا اور اگر پرتگال جانا مشکل ہو تو وہ قریب ترین جنوبی افریقہ پہنچنا چاہے گا۔



قصہ مختصر یہ واضح ہے کہ یورپی نوآبادیاتی تجربے کے بعد افریقہ، ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ کے لوگوں کو اپنے اپنے نوآبادیاتی آقائوں کی زبانوں سے آگہی ہوئی ہے اور اگر کسی وجہ سے یہ لوگ اپنا وطن چھوڑنا چاہیں تو یہ وہاں جاتے ہیں جہاں امن کے ساتھ خوشحالی ہو، اور وہ زبان بولی جاتی ہو، جس سے کہ یہ لوگ واقف ہیں۔



چنانچہ اگر آج امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کے کچھ لوگوں کو تارکین وطن سے چڑ ہے تو وہ اس صورتحال کا الزام ماضی کے برطانوی راج کو دیں، تارکین وطن کو نہیں۔



کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر
ملاقات ہوگی۔

No comments:

Post a Comment