Friday, March 22, 2019

Blasphemy in Bhawalpur




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



 عاشقان رسول اٹھ کھڑے ہوں۔ اب وقت جہاد آیا ہے۔



آج بات کریں گے بھاولپور میں ایک استاد کے اپنے شاگرد کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعے پہ۔ یہ واقعہ یقینا توہین رسالت کی ایک واضح مثال ہے۔



کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کو ایک ایسی عدالت میں پیش کیا جائے جہاں آپ کا موقف بالکل نہ سنا جائے اور صرف دوسرے فریق کی بات سنی جائے؛ اور آخر میں دوسرے فریق کی بات سن کر آپ کا موقف جانے بغیر آپ کو جان سے مار دیا جائے؟

آج کے پاکستان میں توہین رسالت کے نام پہ ایسی ہی اندھی عدالت قائم ہے۔ توہین رسالت کے قانون کے عوامی نفاذ میں اب الزام ہی کافی ہے۔ دوسرے فریق کا موقف جاننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو توہین رسالت کا الزام لگائے، وہی فیصلہ کرے کہ الزام بالکل درست ہے اور موت کا فیصلہ دے، اور پھر وہی شخص جلدی سے ملزم کو موت کے گھاٹ اتار دے۔



شاید پاکستان میں رہنے والے کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہوا کہ کسی پہ توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے مار دینے سے دنیا میں اسلام کا نام روشن ہورہا ہے اور غیرمسلم خود بخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے۔

نہ صرف ان نام نہاد عاشقان رسول کی وجہ سے اسلام کا نام بدنام ہورہا ہے بلکہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے غیر مسلم ہماری مقدس ہستیوں کو یہ کہہ کر برا بھلا کہتے ہیں کہ

 یقینا یہ لوگ اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر ہی عمل کررہے ہیں۔



خدارا ایسا نہ کیجیے۔ اسلام کےدشمن مت بنیے۔ اپنے نبی کے پیغام سے بغاوت مت کیجیے۔ عاشق رسول بنیے، باغی رسول مت بنیے۔



میں آپ کو بتائوں کہ آپ اسلام کا نام کیسے روشن کرسکتے ہیں، اپنے نبی کے سامنے کیسے سرخ رو ہوسکتے ہیں۔

ہمارے نبی کو صفائی بہت پسند تھی۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے غلیظ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔

ایک آدھ جگہوں کو چھوڑ کر ہر شہر، ہر قصبے میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ گٹر کا پانی سڑکوں پہ بہہ رہا ہے۔ پورے ماحول میں بدبو پھیلی ہوئی ہے۔



 آپ اپنے محلے سے صفائی کا کام شروع کیجیے اور پورے ملک میں صفائی کی اس مہم کو آگے بڑھائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اس فعل سے دنیا کس طرح خود بخود اسلام کی طرف رجوع ہوتی ہے۔



اور جہاں تک بھاولپور کے واقعے کا تعلق ہے، مسلمانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ خطیب حسین اپنے فعل سے توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ گمراہ نوجوان ہماری، ہمارے مذہب کی، اور ہمارے نبی کی بدنامی کا ذریعہ بنا ہے۔ اس سفاک قاتل کو جلد از جلد توہین رسالت کے قانون کے تحت سزا ملنی چاہیے۔







کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔

==

No comments:

Post a Comment