Friday, March 22, 2019

NZ Shootings: The real story




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



پچھلے جمعے کے دن نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیاں، ڈانلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں جیت سے زیادہ اہم واقعات ہیں اور دہشت گردی کی یہ کاروائیاں عالمی سطح پہ نئی تبدیلیاں لانے کا امکان رکھتی ہیں۔



کیوں؟



اس لیے کیونکہ برینٹن ٹیرنٹ نامی دہشت گرد نے قتل عام شروع کرنے سے پہلے ایک تحریر کے ذریعے واضح کیا کہ وہ یہ انتہائی قدم اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوا ہے۔



اور آپ اس شخص کو جنونی،سفید فام نسل پرست، یا اسلام دشمن قرار دے کر، اس کی بات کو باآسانی رد نہیں کرسکتے۔ نہ یہ شخص جنونی ہے، نہ نسل پرست، اور نہ مسلمان دشمن۔



اس نے جو قتل عام کیا اس کے پیچھے اس کی ایک واضح سوچ ہے اور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مغربی ممالک میں بہت سے لوگ اس سوچ سے متفق نظر آتے ہیں۔



اس قاتل کا استدلال کیا ہے؟



اس شخص کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں غیر ملکی بھرے چلے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے دن بہ دن مقامی لوگوں کی آبادی کا تناسب کم ہورہا ہے۔ اور عنقریب یہ وقت آنے والا ہے جب مقامی لوگ، یورپی نژاد لوگ، جنہوں نے ان ممالک کو اپنے خون پسینے سے بنایا ہے، ان ممالک میں اقلیت بن جائیں گے۔



اس شخص کو یہ صورت حال گوارا نہیں ہے۔



اس شخص کو کسی دوسرے ملک کے شخص سے کوئی بغض نہیں ہے، اسے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے کوئی عناد نہیں ہے، بس یہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی جگہ رہیں اور وہاں سے اٹھ کر مغربی ممالک میں بسنے نہ آجائیں۔



اب آپ بتائیں کہ اس منطق میں کیا خرابی ہے؟



اگر جاپان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے کہ جس کی وجہ سے جاپانی اپنے ہی ملک میں اقلیت نہ بن جائیں، اگر چین یہ خواہش کرسکتا ہے کہ چین میں صرف چینی لوگ ہی اقتدار سنبھالیں، تو مغربی ممالک کے لوگ ایسی خواہش کیوں نہیں کرسکتے؟



میں سمجھتا ہوں کہ اس دلیل سے انکار ناممکن ہے۔ مگر ساتھ ہی تشدد کا وہ راستہ جو اس شخص نے چنا ہے اس پہ شدید احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ احتجاج مغربی ممالک کے لوگوں کو یہ سمجھا کر کیا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک کے قوانین تارکین وطن یا مسلمانوں نے نہیں بنائے ہیں۔ یہ قوانین مغربی ممالک کے لوگوں ہی نے بنائے ہیں۔ تارکین وطن صرف ان سہل قوانین کا سہارا لے کر مغربی ممالک پہنچ رہے ہیں۔



چنانچہ برینٹن ٹیرنٹ جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ تارکین وطن کو مارنے کے بجائے اپنے قانون ساز اداروں سے بات کریں اور ایسے قوانین بنائیں جن سے تارکین وطن کا راستہ روکا جاسکے۔



مگر یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں نسل پرست قوانین نہیں بنائے جاسکتے۔



اگر مغربی ریاستیں نسل پرست قوانین بنا کر تارکین وطن کا راستہ نہیں روک سکتیں تو برینٹن ٹیرنٹ جیسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کو جمع کر کے اپنے طور پہ ایک ایسی جگہ بنا لیں جہاں ترقی پذیر ممالک کے تارکین وطن نہ جاسکیں۔ ہم بھی دیکھیں کہ ان سفید فام قوم پرستوں کا یہ تجربہ کتنا کامیاب ہوتا ہے۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔

No comments:

Post a Comment