Sunday, April 21, 2019

Hindi/Urdu--What is the reality of human races.



دنیا میں گورے اور کالے لوگ




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔





نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا مختلف نسلوں کے لوگ ایک ساتھ امن سے رہ سکتے ہیں۔ کیا کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی کے پیچھے بھی نسلی برتری کا خیال کارفرما تھا؟



آئیے انسانی نسلوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دنیا میں کالے، گورے، چینی، اور دوسری نسل کے لوگ کہاں سے آئے؟



بیشتر سائنس دان اس بات پہ متفق ہیں کہ اپنی موجودہ شکل میں انسان افریقہ سے کئی لاکھ سال پہلے نکلا اور پھر خوراک کی تلاش میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔



جب انسانی گروہ افریقہ سے نکلا تو اس گروہ کے تمام لوگ شکل و صورت میں ایک جیسے تھے۔ تو پھر کن عوامل کی وجہ سے آج انسان اتنی مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں کی جلد سفید ہے، بعض کی سیاہ، بعض کی آنکھیں نیلی ہیں، بعض کی سیاہ، بعض لمبے ہیں، بعض چھوٹے قد کے۔



کوئی بھی انسانی گروہ جس علاقے میں رہتا ہے وہاں کی آب و ہوا اور لوگوں کی خوراک ان کے نسلی اوصاف کا تعین کرتی ہے۔



اس عمل میں صدیاں لگتی ہیں۔



جہاں سورج کی روشنی زیادہ پڑتی ہے وہاں لوگوں کی جلد سیاہ ہوتی ہے۔

اسی طرح ہوا میں نمی ناک کی شکل اور ہئیت کا تعین کرتی ہے۔ جہاں ہوا میں نمی کم ہوتی ہے وہاں ناکیں پتلی اور ستواں ہوتی ہیں۔

ہوا میں نمی ہی بالوں کی ساخت کا تعین کرتی ہے۔

اسی طرح غذا انسان کے جسم کی شکل کا تعین کرتی ہے۔ جہاں لوگوں کی غذا میں دودھ دہی یا ایسی اشیا کا استعمال زیادہ ہو جن اشیا میں کیلشیم کی مقدار خوب ہو، وہاں لوگوں کے قد لمبے ہوتے ہیں۔





ارتقائی عمل دو طریقوں سے آگے بڑھتا ہے، قدرتی انتخاب اور غیرقدرتی انتخاب کے ذریعے۔ کسی بھی انسانی گروہ کے اپنے تعصبات غیرقدرتی انتخاب کی وہ شکل ہیں جن کے ذریعے ارتقائی عمل مخلتف نسلوں کو جنم دیتا ہے۔ مثلا کسی جینیاتی تبدیلی سے اچانک ایک بچے میں مخصوص رنگ کی آنکھ ظاہر ہوتی ہے۔ اب اگر اس قسم کی آنکھیں اس انسانی گروہ کو پسند ہیں تو افزائش نسل کے ذریعے اس مخصوص جینیاتی تبدیلی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

انسانی گروہوں کے بالوں اور آنکھوں کے رنگ کے تعین میں یہی غیرقدرتی انتخاب کارفرما نظر آتا ہے۔



جب انسان شکاری بٹوریا تھا تو وہ مستقل ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا تھا اور کسی بھی مخصوص علاقے کی آب و ہوا کو اس انسانی گروہ پہ طویل عرصے کے لیے عمل کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ مگر جب انسان نے کاشت کاری سیکھی اور لوگ مخصوص علاقوں میں بس گئے تو مخصوص جغرافیے نے موجودہ انسانی نسلیں بنانا شروع کردیں۔

بس انسانی نسلوں کی یہی حقیقت ہے جو صرف اور صرف نمائشی ہے۔ اندر کا انسان آج بھی ہرجگہ ایک جیسا ہی ہے۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

No comments:

Post a Comment