Tuesday, May 20, 2025

سماجی معاہدہ کیا ہوتا ہے اور اسے سمجھنا کیوں ضروری ہے



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔
یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔

آج ایک اہم موضوع پہ بات کریں گے۔ اور موضوع ہے سماجی معاہدہ۔ جسے انگریزی میں سوشل کانٹریکٹ کہا جاتا ہے۔

سماجی معاہدہ کیا ہوتا ہے اس سلسلے میں ماہرین سیاست  کی بہت مختلف رائے ہوسکتی ہیں مگر یہ عام فہم بات ہے کہ جب کبھی ایک فرد ایک دوسرے فرد سے یا ایک گروہ سے معاملہ کرتا ہے تو وہاں ایک ان کہا معاہدہ موجود ہوتا ہے۔

مثلا اگر کسی شخص کو دعوت میں بلایا گیا ہے تو وہاں بھی ایک سماجی معاہدہ موجود ہے جو نہ لکھا گیا اور نہ ہی کہا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اس بات کی توقع ہے کہ مدعو شخص ضیافت میں ننگا نہیں پہنچ جائے گا یا  یہ کہ وہاں پہنچ کر یہ شخص اچانک لوگوں کو مارنا پیٹنا نہیں شروع کردے گا۔

 دنیا میں طرح طرح کے سماجی معاہدے موجود ہیں۔  انسانوں کے علاوہ سماجی معاہدے جانوروں کے گروہوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
لکھائی ایجاد ہونے کے بعد انسان نے سماجی معاہدوں کو لکھنا شروع  کردیا۔ سماجی معاہدے کو لکھنا اس لیے ضروری تھا تاکہ ایک معاشرے میں رہنے والے سارے لوگ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ معاشرے کو ان سے کیا توقعات ہیں اور انہیں دوسروں سے کیا توقعات رکھنی چاہءیں۔

لکھائی ایجاد ہونے کے فورا بعد لکھے جانے والے سماجی معاہدوں میں بہت  نفاست نہیں تھی۔ ان معاہدوں میں عام باتیں ہوتی تھیں مثلا لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ وہ چوری نہ کریں، کسی کو جان سے نہ ماریں، اور بادشاہ کی اطاعت کریں، وغیرہ، وغیرہ۔ پھر ان سماجی معاہدوں میں سلیقہ آتا گیا اور ایسے سماجی معاہدے سامنے آئے جو کسی مذہب، کسی دھرم سے جڑے ہوتے تھے۔

چھاپہ خانہ ایجاد ہونے کے بعد عوام میں تعلیم بڑھنا شروع ہوئی، بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا اور رفتہ رفتہ جمہوری نظآم ایک پسندیدہ نظام حکومت بن کر ابھرا۔ اور پھر سماجی معاہدے بھی جمہوری بن گئے۔

آج یہ بات عام طور سے تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی بھی جگہ کے قوانین یعنی وہاں کا سماجی معاہدہ وہاں رہنے والے تمام لوگوں کی مرضی ہی سے بنے گا کیونکہ اگر قوانین لوگوں کی مرضی سے نہیں بنیں گے تو لوگ ان قوانین کی پاسداری  نہیں کریں گے۔

کسی بھی معاشرے میں ایک سماجی معاہدہ کیوں ضروری ہے؟
اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ ہر شخص کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص کی مرضی دوسرے شخص کی مصیبت بن جاتی ہے۔ اس موقع پہ ایک سماجی معاہدہ یہ طے کرتا ہے کہ مذکورہ معاملے میں شخص اول کو اپنی مرضی چلانے کا کتنا حق ہے۔

ہرسماجی معاہدہ کسی نہ کسی معاملے میں لوگوں کی آزادی سلب کرتا ہے۔ لیکن ہر شخص جو دوسروں کے ساتھ ایک معاشرے میں رہنا چاہتا ہے، چار و ناچار اپنی مکمل آزادی کا ہتھیار ایک سماجی معاہدے کے سامنے ڈالنے پہ مجبور ہوتا ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال پہ غور کیجیے۔ فرض کریں کہ ایک شخص کو مزا آتا ہے کہ وہ ہوا میں مکے چلائے۔ کوئی بھی سماجی معاہدہ اس شخص کو ایسا کرنے سے منع نہیں کرے گا بشرطیکہ وہ شخص تنہائی میں یہ کام کرے۔ لیکن اگر یہ شخص ایک بھری بس میں سوار ہے تو اس شخص کو اپنی مرضی سے ہوا میں مکے چلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس شخص کی اس حرکت سے دوسروں کو جسمانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کسی ملک کا منشور وہ سماجی معاہدہ ہوتا ہے جو ملک میں موجود تمام لوگوں کی مرضی سے بنا ہوتا ہے۔ کسی شخص واحد یا ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ تمام لوگوں کی مرضی حاصل کیے بغیر اس سماجی معاہدے میں ردوبدل کرے۔
حکومت کا ہر ادارہ سماجی معاہدے کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کوئی اور ادارہ یا شخص واحد۔
فوج کسی بھی ملک کا ایک اہم ادارہ ہے۔ ریاست اس ادارے سے وابستہ لوگوں کو ایک سماجی معاہدے کے تحت اختیارات اور اسلحہ دیتی ہے۔

فوج یا اس سے وابستہ لوگوں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ ریاست کی طرف سے دیے گئے اخیتارات اور اسلحے کا ناجائز استعمال کریں۔ کوئی بھی ایسا استعمال دراصل سماجی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے اور وہ ملک کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

ملک لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، کسی خاص سماجی معاہدے کے تحت۔ کوئی بھی ملک ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ لوگوں کا ذہن بدل سکتا ہے اور ذہن کی اس تبدیلی کے ساتھ ملک کے جغرافیے میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

ایک جمہوری ریاست سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ ریاست اپنے اندر موجود کسی گروہ پہ زبردستی اپنی مرضی ٹھونسے گی۔
اگر کسی جغرافیائی حدود میں موجود ایک گروہ ریاست سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے تو ریاست کو اس علاقے کی اکثریتی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
جمہوریت کا مطلب ہی لوگوں کی رائے کو اہمیت دینا ہے اور لوگوں کی رائے میں یہ رائے بھی شامل ہوسکتی ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ موجودہ ریاست، موجودہ سماجی معاہدےسماجی معاہدے کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے۔

Tuesday, May 7, 2024

تقسیم ہند ایک جھوٹ ہے




بعض جھوٹ اتنی بار دہرائے جاتے ہیں کہ وہ سچ معلوم ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک جھوٹ یہ خیال ہے کہ سنہ سینتالیس میں تقسیم ہند ہوا تھا۔
آج اس جھوٹ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنہ سینتالیس میں ہند تقسیم نہیں ہوا، کوئی پارٹیشن آف انڈیا نہیں ہوا۔


میں بات کو سمجھاتا ہوں۔
کسی بھی بڑے جغرافیائی خطے کے لوگوں کو باہر کے لوگ ایک نام سے پکارتے ہیں جب کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو اپنے علاقے اپنے لسانی تعلق، یا قبائلی تعلق سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہی صورتحال تاریخی طور پہجنوبی ایشیا کی تھی۔ جنوبی ایشیا سے باہر کے لوگ اس خطے کے تمام لوگوں کو ہندی کہا کرتے تھے مگر اگر آپ یہاں رہنے والے کسی شخص سے پوچھتے کہ کیا تم ہندی ہو، انڈین ہو، تو وہ کہتا کہ نہیں میں تو مراٹھی ہوں، یا کشمیری ہوں، یا سندھی ہوں۔
انگریز نے اس علاقے پہ رفتہ رفتہ قبضہ کیا۔ جس وقت انگریز نے جنوبی ایشیا پہ قبضہ کیا اس وقت یہ پورا خطہ چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں اور ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ انگریزوں نے ان تمام، سینکڑوں کے قریب، ملکوں پہ قبضہ کر کے ان کو برٹش انڈیا کا نام دیا۔ یوں  تاریخ میں پہلی بار جنوبی ایشیا میں اتنی بڑی متحدہ ریاست قائم ہوئی ۔
سنہ سینتالیس میں جب انگریز نے اس علاقے کو چھوڑا تو چھوٹی چھوٹی بہت سی ریاستوں کے ساتھ دو بڑے ممالک قائم ہوئے، ایک بھارت اور دوسرا پاکستان۔ موجودہ بھارت، آزادی کے بعد قائم ہونے والے ایک ملک کا نام ہے۔
کوئی بھی چیز بننے سے پہلے کیسے ٹوٹ سکتی ہے؟ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ہندوستان بنا تو پندرہ اگست سنہ سینتالیس کو مگر تقسیم ہند ایک دن پہلے یعنی اگست چودہ کے روز ہوگئی۔
اس لیے تقسیم ہند کی اصطلاح بالکل غلط ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سنہ سینتالیس میں برطانوی ہند نامی ملک ختم ہوا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سمیت دو بڑے ممالک وجود میں آئے؛ اور دو جغرافیائی علاقوں کا بٹوارہ ان  دو ممالک کے درمیان ہوا۔ یعنی پنجاب اور بنگال کا۔ واضح رہے کہ بنگال کی تقسیم سنہ سینتالیس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ چنانچہ اگست چودہ کو جو کچھ ہوا اسے تقسیم پنجاب کہنا چاہیے، تقسیم ہند نہیں۔

Monday, April 24, 2023

Hindi/Urdu: Science and beliefs are two different things






شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔







میں نے ایک دفعہ کہیں لکھا تھا کہ ہمارا ایمان پرانے دور کے مسلمانوں سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ہم نے اپنی مقدس ہستیوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، اس کے باوجود ہم نسل در نسل بتائی گئی باتوں پہ یقین کرتے ہیں۔ ایک صاحب کو میری یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے جواب دیا کہ مذہبی اعتقادات اس سلسلے میں منفرد نہیں ہیں، ہم میں سے کسی نے نیوٹن کو نہیں دیکھا مگر اس کے باوجود نیوٹن کے بتائے ہوئے قوانین پہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ واضح کیا جائے کہ سائنس اور اعقادات میں کیا فرق ہے۔



یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سائنس میں عزت و احترام کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس کا تعلق مکمل دیانت داری، بحث اور نکتہ چینی سے ہے۔ یہاں ہر طرح کا سوال پوچھنے کی مکمل اجازت ہے۔ ہر سائنسی تھیوری کو شک کی نظر سے دیکھنے کی مکمل اجازت ہے۔



سائنس پڑھنے والے نیوٹن کی عزت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آنکھیں بند کر کے نیوٹن کے قوانین کو سچ مانتے ہیں۔ وہ نیوٹن کی عزت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ حقیقی دنیا میں انہیں یہ قوانین سچے اور کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نیوٹن کے مرنے کے دو سو سال بعد انسان خلا میں راکٹ بھیجنے کے قابل ہوا۔ اور یہ راکٹ نیوٹن کے قوانین حرکت کی مدد سے فراری رفتار معلوم کر کے، خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ یہ قوانین حرکت نیوٹن نے دریافت کیے تھے۔ اگر راکٹ خلا میں بھیجنے والوں کو نیوٹن کا نام نہ بھی معلوم ہوتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ اصل سچائی تو ان الجبرائی مساوات میں تھی جو قوانین حرکت کے مطالعے سے اخذ کی گئیں تھیں۔





اعتقادات کے مقابلے میں سائنس خود کار ہے، یہ اپنی سمت خود صحیح کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی پرانی سائنسی تھیوری کو ٹھکرا کر کوئی نئی سائنسی تھیوری پیش کی جائے تو کوئی کسی قسم کا گلہ نہیں کرتا۔

جب آئن اسٹائن نے یہ خیال پیش کیا کہ کسی جسم کی رفتار اگر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جائے تو اس جسم پہ نیوٹن کے دریافت کیے گئے قوانین حرکت کام نہیں کریں گے، تو کسی نے اس بات کا برا نہیں منایا۔ کوئی ناموس نیوٹن ریلی نہیں نکالی گئی۔

سائنسی طریقہ کار کے جڑ پکڑنے سے پہلے یہ دنیا ایک جادوئی جگہ تھی جہاں کوئی توجیہہ نہ ملتی تھی کہ یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے۔ سائنسی طریقہ کار کی دریافت کے بعد اب یہ دنیا وجہ اور نتیجے کی دنیا ہے۔ اب کسی بات کو بھگوان کی مرضی کہہ کر نہیں ٹالا جاسکتا۔ کچھ عرصے پہلے انڈونیشیا میں لائن ائیر کا ایک جہاز گرا۔ انڈونیشیا ایک مسلمان آبادی والا ملک ہے مگر اس حادثے کے بعد وہاں بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ وہ جہاز کیوں گرا۔ اس معاملے کو اللہ کی مرضی کہہ کر ختم نہیں کیا جارہا۔

سائنس کو کسی عقیدے سے کسی قسم کی توثیق کی ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی لوگ مستقل سائنس کی مدد سے اپنے عقیدے کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ اس دنیا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو نظر نہیں آتی، سنائی دیتی ہے، جسے آپ سونگھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، تو آپ سائنس کی مدد سے اس دنیا کو تسخیر کرنے کی کوشش کیجیے۔ اور وہ باتیں جو حواس خمسہ سے بالاتر ہیں ان کے لیے اپنے مذہبی عقائد پہ ڈٹے رہیے۔






کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔



Sunday, April 24, 2022

Hindi/Urdu: People of Dharvi, this one is for you







شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔





آپ کا ملک آپ کی وجہ سے گندہ ہے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے دنیا کے نوے سے اوپر ممالک میں سفر کیا ہے۔ میں آپ کو پورے یقین سے بتا سکتا ہوں کہ دنیا میں بہت سے ممالک بہت غریب ہیں مگر جتنی غلاظت آپ کو ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش میں نظر آئے گی، دنیا کے دوسرے غریب ممالک میں نظر نہیں آئے گی۔

آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ باشعور ہیں، آپ کو بھی اپنے آس پاس پھیلا کوڑا برا لگتا ہوگا۔

مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آبادیوں سے کوڑا نہ اٹھنے کے سلسلے میں سرکاری اداروں کو یقینا الزام دیا جاسکتا ہے مگر آپ، ایک شخص، ایک ذمہ دار شہری، کوڑے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ



مگر ہر شخص، ہر ذمہ دار شہری، بشمول آپ کے، کوڑے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکتا ہے۔

آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ آپ کے گھر سے باہر جانے والا کوڑا دو طرح کا ہوتا ہے۔ سوکھا کوڑا اور گیلا کوڑا۔ گیلا کوڑے میں سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، ضائع کیا جانے والا کھانا، انڈوں کے چھلکے، وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ گیلا کوڑا وہ کوڑا ہے جو باہر جا کر سڑتا ہے۔ گیلا کوڑا وہ کوڑا ہے جس کے ڈھیر پہ طرح طرح کے جراثیم پلتے ہیں۔ یہی جراثیم بعد میں لوگوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کے پھیلائو کا سبب بنتے ہیں۔ کیا آپ کو برا نہیں لگتا کہ آپ کے ایک عمل سے دوسرے لوگوں کو جسمانی تکلیف پہنچتی ہے اور بعض صورتوں میں لوگ مر بھی جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے گھر کا گیلا کوڑا نہ پھینکیں بلکہ اسے زمین میں گاڑ دیں۔ گیلے کوڑے کو زمین میں گاڑنے کے عمل کو کمپوسٹنگ کہتے ہیں اور اس عمل سے نہایت عمدہ کھاد حاصل ہوتی ہے۔ آپ کمپوسٹنگ کا یہ عمل گملوں میں بھی کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد آپ ایسا ہی کریں گے۔




کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Sunday, April 21, 2019

Hindi/Urdu--What is the reality of human races.



دنیا میں گورے اور کالے لوگ




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔





نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا مختلف نسلوں کے لوگ ایک ساتھ امن سے رہ سکتے ہیں۔ کیا کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی کے پیچھے بھی نسلی برتری کا خیال کارفرما تھا؟



آئیے انسانی نسلوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دنیا میں کالے، گورے، چینی، اور دوسری نسل کے لوگ کہاں سے آئے؟



بیشتر سائنس دان اس بات پہ متفق ہیں کہ اپنی موجودہ شکل میں انسان افریقہ سے کئی لاکھ سال پہلے نکلا اور پھر خوراک کی تلاش میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔



جب انسانی گروہ افریقہ سے نکلا تو اس گروہ کے تمام لوگ شکل و صورت میں ایک جیسے تھے۔ تو پھر کن عوامل کی وجہ سے آج انسان اتنی مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں کی جلد سفید ہے، بعض کی سیاہ، بعض کی آنکھیں نیلی ہیں، بعض کی سیاہ، بعض لمبے ہیں، بعض چھوٹے قد کے۔



کوئی بھی انسانی گروہ جس علاقے میں رہتا ہے وہاں کی آب و ہوا اور لوگوں کی خوراک ان کے نسلی اوصاف کا تعین کرتی ہے۔



اس عمل میں صدیاں لگتی ہیں۔



جہاں سورج کی روشنی زیادہ پڑتی ہے وہاں لوگوں کی جلد سیاہ ہوتی ہے۔

اسی طرح ہوا میں نمی ناک کی شکل اور ہئیت کا تعین کرتی ہے۔ جہاں ہوا میں نمی کم ہوتی ہے وہاں ناکیں پتلی اور ستواں ہوتی ہیں۔

ہوا میں نمی ہی بالوں کی ساخت کا تعین کرتی ہے۔

اسی طرح غذا انسان کے جسم کی شکل کا تعین کرتی ہے۔ جہاں لوگوں کی غذا میں دودھ دہی یا ایسی اشیا کا استعمال زیادہ ہو جن اشیا میں کیلشیم کی مقدار خوب ہو، وہاں لوگوں کے قد لمبے ہوتے ہیں۔





ارتقائی عمل دو طریقوں سے آگے بڑھتا ہے، قدرتی انتخاب اور غیرقدرتی انتخاب کے ذریعے۔ کسی بھی انسانی گروہ کے اپنے تعصبات غیرقدرتی انتخاب کی وہ شکل ہیں جن کے ذریعے ارتقائی عمل مخلتف نسلوں کو جنم دیتا ہے۔ مثلا کسی جینیاتی تبدیلی سے اچانک ایک بچے میں مخصوص رنگ کی آنکھ ظاہر ہوتی ہے۔ اب اگر اس قسم کی آنکھیں اس انسانی گروہ کو پسند ہیں تو افزائش نسل کے ذریعے اس مخصوص جینیاتی تبدیلی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

انسانی گروہوں کے بالوں اور آنکھوں کے رنگ کے تعین میں یہی غیرقدرتی انتخاب کارفرما نظر آتا ہے۔



جب انسان شکاری بٹوریا تھا تو وہ مستقل ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا تھا اور کسی بھی مخصوص علاقے کی آب و ہوا کو اس انسانی گروہ پہ طویل عرصے کے لیے عمل کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ مگر جب انسان نے کاشت کاری سیکھی اور لوگ مخصوص علاقوں میں بس گئے تو مخصوص جغرافیے نے موجودہ انسانی نسلیں بنانا شروع کردیں۔

بس انسانی نسلوں کی یہی حقیقت ہے جو صرف اور صرف نمائشی ہے۔ اندر کا انسان آج بھی ہرجگہ ایک جیسا ہی ہے۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔