Tuesday, May 7, 2024

تقسیم ہند ایک جھوٹ ہے




بعض جھوٹ اتنی بار دہرائے جاتے ہیں کہ وہ سچ معلوم ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک جھوٹ یہ خیال ہے کہ سنہ سینتالیس میں تقسیم ہند ہوا تھا۔
آج اس جھوٹ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنہ سینتالیس میں ہند تقسیم نہیں ہوا، کوئی پارٹیشن آف انڈیا نہیں ہوا۔


میں بات کو سمجھاتا ہوں۔
کسی بھی بڑے جغرافیائی خطے کے لوگوں کو باہر کے لوگ ایک نام سے پکارتے ہیں جب کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو اپنے علاقے اپنے لسانی تعلق، یا قبائلی تعلق سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہی صورتحال تاریخی طور پہجنوبی ایشیا کی تھی۔ جنوبی ایشیا سے باہر کے لوگ اس خطے کے تمام لوگوں کو ہندی کہا کرتے تھے مگر اگر آپ یہاں رہنے والے کسی شخص سے پوچھتے کہ کیا تم ہندی ہو، انڈین ہو، تو وہ کہتا کہ نہیں میں تو مراٹھی ہوں، یا کشمیری ہوں، یا سندھی ہوں۔
انگریز نے اس علاقے پہ رفتہ رفتہ قبضہ کیا۔ جس وقت انگریز نے جنوبی ایشیا پہ قبضہ کیا اس وقت یہ پورا خطہ چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں اور ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ انگریزوں نے ان تمام، سینکڑوں کے قریب، ملکوں پہ قبضہ کر کے ان کو برٹش انڈیا کا نام دیا۔ یوں  تاریخ میں پہلی بار جنوبی ایشیا میں اتنی بڑی متحدہ ریاست قائم ہوئی ۔
سنہ سینتالیس میں جب انگریز نے اس علاقے کو چھوڑا تو چھوٹی چھوٹی بہت سی ریاستوں کے ساتھ دو بڑے ممالک قائم ہوئے، ایک بھارت اور دوسرا پاکستان۔ موجودہ بھارت، آزادی کے بعد قائم ہونے والے ایک ملک کا نام ہے۔
کوئی بھی چیز بننے سے پہلے کیسے ٹوٹ سکتی ہے؟ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ہندوستان بنا تو پندرہ اگست سنہ سینتالیس کو مگر تقسیم ہند ایک دن پہلے یعنی اگست چودہ کے روز ہوگئی۔
اس لیے تقسیم ہند کی اصطلاح بالکل غلط ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سنہ سینتالیس میں برطانوی ہند نامی ملک ختم ہوا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سمیت دو بڑے ممالک وجود میں آئے؛ اور دو جغرافیائی علاقوں کا بٹوارہ ان  دو ممالک کے درمیان ہوا۔ یعنی پنجاب اور بنگال کا۔ واضح رہے کہ بنگال کی تقسیم سنہ سینتالیس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ چنانچہ اگست چودہ کو جو کچھ ہوا اسے تقسیم پنجاب کہنا چاہیے، تقسیم ہند نہیں۔

No comments:

Post a Comment