Tuesday, May 20, 2025

سماجی معاہدہ کیا ہوتا ہے اور اسے سمجھنا کیوں ضروری ہے



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔
یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔

آج ایک اہم موضوع پہ بات کریں گے۔ اور موضوع ہے سماجی معاہدہ۔ جسے انگریزی میں سوشل کانٹریکٹ کہا جاتا ہے۔

سماجی معاہدہ کیا ہوتا ہے اس سلسلے میں ماہرین سیاست  کی بہت مختلف رائے ہوسکتی ہیں مگر یہ عام فہم بات ہے کہ جب کبھی ایک فرد ایک دوسرے فرد سے یا ایک گروہ سے معاملہ کرتا ہے تو وہاں ایک ان کہا معاہدہ موجود ہوتا ہے۔

مثلا اگر کسی شخص کو دعوت میں بلایا گیا ہے تو وہاں بھی ایک سماجی معاہدہ موجود ہے جو نہ لکھا گیا اور نہ ہی کہا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اس بات کی توقع ہے کہ مدعو شخص ضیافت میں ننگا نہیں پہنچ جائے گا یا  یہ کہ وہاں پہنچ کر یہ شخص اچانک لوگوں کو مارنا پیٹنا نہیں شروع کردے گا۔

 دنیا میں طرح طرح کے سماجی معاہدے موجود ہیں۔  انسانوں کے علاوہ سماجی معاہدے جانوروں کے گروہوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
لکھائی ایجاد ہونے کے بعد انسان نے سماجی معاہدوں کو لکھنا شروع  کردیا۔ سماجی معاہدے کو لکھنا اس لیے ضروری تھا تاکہ ایک معاشرے میں رہنے والے سارے لوگ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ معاشرے کو ان سے کیا توقعات ہیں اور انہیں دوسروں سے کیا توقعات رکھنی چاہءیں۔

لکھائی ایجاد ہونے کے فورا بعد لکھے جانے والے سماجی معاہدوں میں بہت  نفاست نہیں تھی۔ ان معاہدوں میں عام باتیں ہوتی تھیں مثلا لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ وہ چوری نہ کریں، کسی کو جان سے نہ ماریں، اور بادشاہ کی اطاعت کریں، وغیرہ، وغیرہ۔ پھر ان سماجی معاہدوں میں سلیقہ آتا گیا اور ایسے سماجی معاہدے سامنے آئے جو کسی مذہب، کسی دھرم سے جڑے ہوتے تھے۔

چھاپہ خانہ ایجاد ہونے کے بعد عوام میں تعلیم بڑھنا شروع ہوئی، بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا اور رفتہ رفتہ جمہوری نظآم ایک پسندیدہ نظام حکومت بن کر ابھرا۔ اور پھر سماجی معاہدے بھی جمہوری بن گئے۔

آج یہ بات عام طور سے تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی بھی جگہ کے قوانین یعنی وہاں کا سماجی معاہدہ وہاں رہنے والے تمام لوگوں کی مرضی ہی سے بنے گا کیونکہ اگر قوانین لوگوں کی مرضی سے نہیں بنیں گے تو لوگ ان قوانین کی پاسداری  نہیں کریں گے۔

کسی بھی معاشرے میں ایک سماجی معاہدہ کیوں ضروری ہے؟
اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ ہر شخص کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص کی مرضی دوسرے شخص کی مصیبت بن جاتی ہے۔ اس موقع پہ ایک سماجی معاہدہ یہ طے کرتا ہے کہ مذکورہ معاملے میں شخص اول کو اپنی مرضی چلانے کا کتنا حق ہے۔

ہرسماجی معاہدہ کسی نہ کسی معاملے میں لوگوں کی آزادی سلب کرتا ہے۔ لیکن ہر شخص جو دوسروں کے ساتھ ایک معاشرے میں رہنا چاہتا ہے، چار و ناچار اپنی مکمل آزادی کا ہتھیار ایک سماجی معاہدے کے سامنے ڈالنے پہ مجبور ہوتا ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال پہ غور کیجیے۔ فرض کریں کہ ایک شخص کو مزا آتا ہے کہ وہ ہوا میں مکے چلائے۔ کوئی بھی سماجی معاہدہ اس شخص کو ایسا کرنے سے منع نہیں کرے گا بشرطیکہ وہ شخص تنہائی میں یہ کام کرے۔ لیکن اگر یہ شخص ایک بھری بس میں سوار ہے تو اس شخص کو اپنی مرضی سے ہوا میں مکے چلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس شخص کی اس حرکت سے دوسروں کو جسمانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کسی ملک کا منشور وہ سماجی معاہدہ ہوتا ہے جو ملک میں موجود تمام لوگوں کی مرضی سے بنا ہوتا ہے۔ کسی شخص واحد یا ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ تمام لوگوں کی مرضی حاصل کیے بغیر اس سماجی معاہدے میں ردوبدل کرے۔
حکومت کا ہر ادارہ سماجی معاہدے کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کوئی اور ادارہ یا شخص واحد۔
فوج کسی بھی ملک کا ایک اہم ادارہ ہے۔ ریاست اس ادارے سے وابستہ لوگوں کو ایک سماجی معاہدے کے تحت اختیارات اور اسلحہ دیتی ہے۔

فوج یا اس سے وابستہ لوگوں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ ریاست کی طرف سے دیے گئے اخیتارات اور اسلحے کا ناجائز استعمال کریں۔ کوئی بھی ایسا استعمال دراصل سماجی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے اور وہ ملک کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

ملک لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، کسی خاص سماجی معاہدے کے تحت۔ کوئی بھی ملک ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ لوگوں کا ذہن بدل سکتا ہے اور ذہن کی اس تبدیلی کے ساتھ ملک کے جغرافیے میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

ایک جمہوری ریاست سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ ریاست اپنے اندر موجود کسی گروہ پہ زبردستی اپنی مرضی ٹھونسے گی۔
اگر کسی جغرافیائی حدود میں موجود ایک گروہ ریاست سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے تو ریاست کو اس علاقے کی اکثریتی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
جمہوریت کا مطلب ہی لوگوں کی رائے کو اہمیت دینا ہے اور لوگوں کی رائے میں یہ رائے بھی شامل ہوسکتی ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ موجودہ ریاست، موجودہ سماجی معاہدےسماجی معاہدے کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے۔