Monday, April 24, 2023

Hindi/Urdu: Science and beliefs are two different things






شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔







میں نے ایک دفعہ کہیں لکھا تھا کہ ہمارا ایمان پرانے دور کے مسلمانوں سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ہم نے اپنی مقدس ہستیوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، اس کے باوجود ہم نسل در نسل بتائی گئی باتوں پہ یقین کرتے ہیں۔ ایک صاحب کو میری یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے جواب دیا کہ مذہبی اعتقادات اس سلسلے میں منفرد نہیں ہیں، ہم میں سے کسی نے نیوٹن کو نہیں دیکھا مگر اس کے باوجود نیوٹن کے بتائے ہوئے قوانین پہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ واضح کیا جائے کہ سائنس اور اعقادات میں کیا فرق ہے۔



یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سائنس میں عزت و احترام کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس کا تعلق مکمل دیانت داری، بحث اور نکتہ چینی سے ہے۔ یہاں ہر طرح کا سوال پوچھنے کی مکمل اجازت ہے۔ ہر سائنسی تھیوری کو شک کی نظر سے دیکھنے کی مکمل اجازت ہے۔



سائنس پڑھنے والے نیوٹن کی عزت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آنکھیں بند کر کے نیوٹن کے قوانین کو سچ مانتے ہیں۔ وہ نیوٹن کی عزت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ حقیقی دنیا میں انہیں یہ قوانین سچے اور کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نیوٹن کے مرنے کے دو سو سال بعد انسان خلا میں راکٹ بھیجنے کے قابل ہوا۔ اور یہ راکٹ نیوٹن کے قوانین حرکت کی مدد سے فراری رفتار معلوم کر کے، خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ یہ قوانین حرکت نیوٹن نے دریافت کیے تھے۔ اگر راکٹ خلا میں بھیجنے والوں کو نیوٹن کا نام نہ بھی معلوم ہوتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ اصل سچائی تو ان الجبرائی مساوات میں تھی جو قوانین حرکت کے مطالعے سے اخذ کی گئیں تھیں۔





اعتقادات کے مقابلے میں سائنس خود کار ہے، یہ اپنی سمت خود صحیح کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی پرانی سائنسی تھیوری کو ٹھکرا کر کوئی نئی سائنسی تھیوری پیش کی جائے تو کوئی کسی قسم کا گلہ نہیں کرتا۔

جب آئن اسٹائن نے یہ خیال پیش کیا کہ کسی جسم کی رفتار اگر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جائے تو اس جسم پہ نیوٹن کے دریافت کیے گئے قوانین حرکت کام نہیں کریں گے، تو کسی نے اس بات کا برا نہیں منایا۔ کوئی ناموس نیوٹن ریلی نہیں نکالی گئی۔

سائنسی طریقہ کار کے جڑ پکڑنے سے پہلے یہ دنیا ایک جادوئی جگہ تھی جہاں کوئی توجیہہ نہ ملتی تھی کہ یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے۔ سائنسی طریقہ کار کی دریافت کے بعد اب یہ دنیا وجہ اور نتیجے کی دنیا ہے۔ اب کسی بات کو بھگوان کی مرضی کہہ کر نہیں ٹالا جاسکتا۔ کچھ عرصے پہلے انڈونیشیا میں لائن ائیر کا ایک جہاز گرا۔ انڈونیشیا ایک مسلمان آبادی والا ملک ہے مگر اس حادثے کے بعد وہاں بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ وہ جہاز کیوں گرا۔ اس معاملے کو اللہ کی مرضی کہہ کر ختم نہیں کیا جارہا۔

سائنس کو کسی عقیدے سے کسی قسم کی توثیق کی ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی لوگ مستقل سائنس کی مدد سے اپنے عقیدے کی توثیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ اس دنیا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو نظر نہیں آتی، سنائی دیتی ہے، جسے آپ سونگھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، تو آپ سائنس کی مدد سے اس دنیا کو تسخیر کرنے کی کوشش کیجیے۔ اور وہ باتیں جو حواس خمسہ سے بالاتر ہیں ان کے لیے اپنے مذہبی عقائد پہ ڈٹے رہیے۔






کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔



Sunday, April 24, 2022

Hindi/Urdu: People of Dharvi, this one is for you







شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔





آپ کا ملک آپ کی وجہ سے گندہ ہے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے دنیا کے نوے سے اوپر ممالک میں سفر کیا ہے۔ میں آپ کو پورے یقین سے بتا سکتا ہوں کہ دنیا میں بہت سے ممالک بہت غریب ہیں مگر جتنی غلاظت آپ کو ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش میں نظر آئے گی، دنیا کے دوسرے غریب ممالک میں نظر نہیں آئے گی۔

آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ باشعور ہیں، آپ کو بھی اپنے آس پاس پھیلا کوڑا برا لگتا ہوگا۔

مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آبادیوں سے کوڑا نہ اٹھنے کے سلسلے میں سرکاری اداروں کو یقینا الزام دیا جاسکتا ہے مگر آپ، ایک شخص، ایک ذمہ دار شہری، کوڑے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ



مگر ہر شخص، ہر ذمہ دار شہری، بشمول آپ کے، کوڑے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکتا ہے۔

آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ آپ کے گھر سے باہر جانے والا کوڑا دو طرح کا ہوتا ہے۔ سوکھا کوڑا اور گیلا کوڑا۔ گیلا کوڑے میں سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، ضائع کیا جانے والا کھانا، انڈوں کے چھلکے، وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ گیلا کوڑا وہ کوڑا ہے جو باہر جا کر سڑتا ہے۔ گیلا کوڑا وہ کوڑا ہے جس کے ڈھیر پہ طرح طرح کے جراثیم پلتے ہیں۔ یہی جراثیم بعد میں لوگوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کے پھیلائو کا سبب بنتے ہیں۔ کیا آپ کو برا نہیں لگتا کہ آپ کے ایک عمل سے دوسرے لوگوں کو جسمانی تکلیف پہنچتی ہے اور بعض صورتوں میں لوگ مر بھی جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے گھر کا گیلا کوڑا نہ پھینکیں بلکہ اسے زمین میں گاڑ دیں۔ گیلے کوڑے کو زمین میں گاڑنے کے عمل کو کمپوسٹنگ کہتے ہیں اور اس عمل سے نہایت عمدہ کھاد حاصل ہوتی ہے۔ آپ کمپوسٹنگ کا یہ عمل گملوں میں بھی کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد آپ ایسا ہی کریں گے۔




کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Sunday, April 21, 2019

Hindi/Urdu--What is the reality of human races.



دنیا میں گورے اور کالے لوگ




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔





نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا مختلف نسلوں کے لوگ ایک ساتھ امن سے رہ سکتے ہیں۔ کیا کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی کے پیچھے بھی نسلی برتری کا خیال کارفرما تھا؟



آئیے انسانی نسلوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دنیا میں کالے، گورے، چینی، اور دوسری نسل کے لوگ کہاں سے آئے؟



بیشتر سائنس دان اس بات پہ متفق ہیں کہ اپنی موجودہ شکل میں انسان افریقہ سے کئی لاکھ سال پہلے نکلا اور پھر خوراک کی تلاش میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔



جب انسانی گروہ افریقہ سے نکلا تو اس گروہ کے تمام لوگ شکل و صورت میں ایک جیسے تھے۔ تو پھر کن عوامل کی وجہ سے آج انسان اتنی مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں کی جلد سفید ہے، بعض کی سیاہ، بعض کی آنکھیں نیلی ہیں، بعض کی سیاہ، بعض لمبے ہیں، بعض چھوٹے قد کے۔



کوئی بھی انسانی گروہ جس علاقے میں رہتا ہے وہاں کی آب و ہوا اور لوگوں کی خوراک ان کے نسلی اوصاف کا تعین کرتی ہے۔



اس عمل میں صدیاں لگتی ہیں۔



جہاں سورج کی روشنی زیادہ پڑتی ہے وہاں لوگوں کی جلد سیاہ ہوتی ہے۔

اسی طرح ہوا میں نمی ناک کی شکل اور ہئیت کا تعین کرتی ہے۔ جہاں ہوا میں نمی کم ہوتی ہے وہاں ناکیں پتلی اور ستواں ہوتی ہیں۔

ہوا میں نمی ہی بالوں کی ساخت کا تعین کرتی ہے۔

اسی طرح غذا انسان کے جسم کی شکل کا تعین کرتی ہے۔ جہاں لوگوں کی غذا میں دودھ دہی یا ایسی اشیا کا استعمال زیادہ ہو جن اشیا میں کیلشیم کی مقدار خوب ہو، وہاں لوگوں کے قد لمبے ہوتے ہیں۔





ارتقائی عمل دو طریقوں سے آگے بڑھتا ہے، قدرتی انتخاب اور غیرقدرتی انتخاب کے ذریعے۔ کسی بھی انسانی گروہ کے اپنے تعصبات غیرقدرتی انتخاب کی وہ شکل ہیں جن کے ذریعے ارتقائی عمل مخلتف نسلوں کو جنم دیتا ہے۔ مثلا کسی جینیاتی تبدیلی سے اچانک ایک بچے میں مخصوص رنگ کی آنکھ ظاہر ہوتی ہے۔ اب اگر اس قسم کی آنکھیں اس انسانی گروہ کو پسند ہیں تو افزائش نسل کے ذریعے اس مخصوص جینیاتی تبدیلی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

انسانی گروہوں کے بالوں اور آنکھوں کے رنگ کے تعین میں یہی غیرقدرتی انتخاب کارفرما نظر آتا ہے۔



جب انسان شکاری بٹوریا تھا تو وہ مستقل ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا تھا اور کسی بھی مخصوص علاقے کی آب و ہوا کو اس انسانی گروہ پہ طویل عرصے کے لیے عمل کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ مگر جب انسان نے کاشت کاری سیکھی اور لوگ مخصوص علاقوں میں بس گئے تو مخصوص جغرافیے نے موجودہ انسانی نسلیں بنانا شروع کردیں۔

بس انسانی نسلوں کی یہی حقیقت ہے جو صرف اور صرف نمائشی ہے۔ اندر کا انسان آج بھی ہرجگہ ایک جیسا ہی ہے۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Saturday, April 20, 2019

Hindi/Urdu Beyond College bypassing College: How to give the best world-class education to your children, for free



بہترین تعلیم مفت کیسے حاصل کریں




شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے۔ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



دو سال پہلے مجھے ایک صاحب نے اسلام آباد ہوائی اڈے تک چھوڑا۔ اس مختصر سفر میں ان صاحب سے روز مرہ کی چند باتیں ہوئیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سے سخت فکرمند تھے۔ اپنی قلیل آمدنی میں ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے چار بچوں کو مہنگے اسکولوں میں پڑھائیں۔ تو پھر وہ کیا کریں کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں؟

 میں نے ان صاحب کو مختصرا بتایا کہ اب انٹرنیٹ کےذریعے نہایت اعلی تعلیم بالکل مفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپ کو صرف یہ کوشش کرنی ہے کہ بچے کو بنیادی ریاضی آجائے اور انگریزی حروف تہجی کے ساتھ دو سو کے قریب بنیادی انگریزی الفاظ اس کی دسترس میں آجائیں۔ اتنی تعلیم کے بعد اب بچہ اس قابل ہے کہ اسے انٹرنیٹ پہ ویڈیو دکھا کر آگے کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ ریاضی اور سائنس کے علوم سیکھنے کے لیے ایک معتبر ویب سائٹ خان اکیڈمی ہے۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے کوئی بھی طالب علم درجہ بدرجہ ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے میں یہ آسانی ہے کہ اگر آپ کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو آپ ویڈیو دوبارہ چلا کر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

جب آپ ریاضی میں کیلکولس تک کی تعلیم حاصل کرلیں اور آپ کو بنیادی کیمیا، طبیعات، اور حیاتیات کی سمجھ آجائے تو آپ ان ماہرین کو باتیں سنیں جنہیں زندگی کا گہرا تجربہ حاصل ہے۔ اور ماہرین سے یہ تجربہ مفت حاصل کرنے کے لیے آپ انٹرنیٹ پہ ٹیڈ ٹالکس کا رخ کریں۔

آپ زندگی، صحت، خوشی، ورزش، مالی امور، نفسیات، ٹیکنالوجی، اور لیڈرشپ جیسے موضوعات پہ ایک سو مقبول ترین ٹیڈ ٹالکس سنیں۔

جو شخص اس طرح انٹرنیٹ پہ تعلیم حاصل کرے وہ یہ عمل مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔ بس خیال رہے کہ عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد بھی آپ مستقل تعلیمی ویڈیو کے ذریعے اپنی ذہنی نشو نما کرتے رہیں۔





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Friday, March 29, 2019

NZ Shootings: What is the alternative to violence?







شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



 نیوزی لینڈ کی مساجد میں پچاس کے قریب معصوم لوگوں کو بے رحمی سے قتل کرنے والا شخص لکھتا ہے کہ تارکین وطن کو مغربی دنیا سے بھگانے کا صرف ایک راستہ ہے، اور وہ راستہ ہے تشدد کا۔

اس شخص کو یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آبادی مستقل بڑھتی جائے گی اور ایک دن یہ لوگ اکثریت میں ہوں گے اور یورپی نژاد لوگ، یعنی اس قاتل کے اپنے لوگ، اقلیت بن جائیں گے اور ملک ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

اور اس قاتل کے اس خوف کو تاریخ صحیح ثابت کرتی ہے۔ اس قاتل کے آبا و اجداد نے بالکل اسی طرح آسٹریلیا کو اپنے قبضے میں لیا تھا اور پرانی مقامی آبادی کو اقلیت بنا دیا گیا۔

اس قاتل کا یہ کہنا نظر آتا ہے کہ اگر اس کے آبا و اجداد نے ماضی میں دوسرے لوگوں کے خلاف تشدد کا راستہ اپنایا، تو آج بھی تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔



ہمیں اس سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ سولھویں، سترہویں، اور اٹھارویں صدی میں یورپی لوگوں نے شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادیوں کے خلاف تشدد کا جو راستہ اپنایا وہ سراسر غیر اخلاقی تھا۔ برا ہوا کہ اس پرانے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے اور اس ظلم کی داستان دنیا کے دوسرے لوگوں تک بروقت نہ پہنچ سکی۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ یورپی جن نئی جگہوں پہ گئے وہاں کوئی لکھا قانون موجود نہیں تھا۔

مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج ہرجگہ ایسے عمرانی معاہدے موجود ہیں جو ملک کا منشور اور قوانین کہلاتے ہیں۔ اور کوئی عمرانی معاہدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس معاہدے کے تحت رہنے والا ایک شہری دوسرے شہری پہ تشدد کرے۔

سفید فام وطن پرستوں کی طرف سے کی جانے والی تشدد کی کاروائیاں ہرگز نئے تارکین وطن کا راستہ نہیں روکیں گی۔ ان پرتشدد وارداتوں سے الٹا وطن پرستوں کی تحریک بدنام ہوگی





کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔

Thursday, March 28, 2019

NZ Shootings: Blame the British Empire.



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔

 

افریقہ سے نکلنے کے بعد انسان مستقل حرکت میں ہے۔ مگر آج کے عالمی میڈیا کے اثر سے فی زمانہ لوگوں اور گروہوں کی نقل مکانی زیادہ آسانی سے سب کو نظر آتی ہے اور اس متعلق بات بھی ہوتی ہے۔

سولھویں صدی میں جب یورپ کے لوگ شمالی اور جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ پہنچے تو ان جگہوں پہ پہلے سے بسنے والے لوگ ان نوواردوں کو دیکھ کر ٹھٹھکے اور پھر رفتہ رفتہ مقامی آبادی کا صفایا ہوتا گیا، حالانکہ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کے باوجود مقامی لوگوں نے اپنی بقا کی جنگ خوب لڑی۔ مگر وہ اخبار، ٹی وی، اور انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے اس جدوجہد کی کہانی دبی رہ گئی۔

کل کر طرح آج بھی لوگ دو وجوہات سے نقل مکان کرتے ہیں۔ اول۔ معاشی وجہ سے، اور دوئم اپنی جان بچانے کے لیے کہ جب ان کے اپنے وطن میں جنگ یا انتشار ہو۔ اور نقل مکانی کے لیے تیار یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ وہ لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں امن و امان ہو، اور جہاں وہ اپنی روزی کا انتظام کرسکیں۔

نقل مکانی کے لیے جگہ چنتے وقت دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس نئی جگہ پہ جانا کتنا آسان ہے، اور آیا اس نئی جگہ پہ زبان کا بہت بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔



ان دو نکات کو سامنے رکھیں تو آپ جان سکتے ہیں کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک سے اٹھ کر لوگ کہاں جانا چاہیں گے۔



مثلا نکاراگوا۔ نکاراگوا سے اٹھ کر لوگ جنوب میں ہسپانوی بولنے والے کسی امیر ملک جانا چاہیں گے۔ اور جو زیادہ دلیر ہیں وہ شمال کی طرف چلیں گے کہ کسی طرح امریکہ پہنچ کر وہاں کی بڑی ہسپانوی آبادی میں ضم ہوجائیں۔



مالی۔ مالی کے لوگ قریب ترین فرانسیسی بولنے والے ملک جانا چاہیں گے، اور اگر ممکن ہو تو فرانس پہنچنا چاہیں گے۔

انگولا۔ انگولا کا تارک وطن پرتگال جانا چاہے گا اور اگر پرتگال جانا مشکل ہو تو وہ قریب ترین جنوبی افریقہ پہنچنا چاہے گا۔



قصہ مختصر یہ واضح ہے کہ یورپی نوآبادیاتی تجربے کے بعد افریقہ، ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ کے لوگوں کو اپنے اپنے نوآبادیاتی آقائوں کی زبانوں سے آگہی ہوئی ہے اور اگر کسی وجہ سے یہ لوگ اپنا وطن چھوڑنا چاہیں تو یہ وہاں جاتے ہیں جہاں امن کے ساتھ خوشحالی ہو، اور وہ زبان بولی جاتی ہو، جس سے کہ یہ لوگ واقف ہیں۔



چنانچہ اگر آج امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کے کچھ لوگوں کو تارکین وطن سے چڑ ہے تو وہ اس صورتحال کا الزام ماضی کے برطانوی راج کو دیں، تارکین وطن کو نہیں۔



کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے آپ سے پھر
ملاقات ہوگی۔

Tuesday, March 26, 2019

NZ Shootings: Why are Muslims living in the western countries?



شانتی کے پیغام کے ساتھ سمندطور حاضر ہے۔

یہ زمین اپنی زمین ہے؛ یہاں رہنے والے سارے لوگ اپنے لوگ ہیں۔



کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد میں مسلمان گروہوں کا ردعمل کسی قدر حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔ پھر وہی پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں: مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے؛ ہم پرامن لوگ ہیں مگر ہمیں مارا جارہا ہے۔ اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برینٹن ٹیرنٹ کی تحریر غور سے پڑھیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس سفاک قاتل کے ذہن میں کیا خیالات پرورش پاتے رہے ہیں۔

یہ شخص مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں رہیں۔ اس شخص کو یہ تکلیف ہے کہ مسلمان اور دوسرے تارکین وطن اپنے اپنے ملک چھوڑ کر اس کے ملک میں کیوں آرہے ہیں۔

اور اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔

ہم مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے بہترین مذہب ہے؛ اسلام میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے؛ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اس بہترین نظام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں کو کیوں نہیں سنوار لیتے؟

وہ ایک بہتر جگہ کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

یقینا آج چند ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان اکثریت  کے باوجود  وہاں کے مسلمان اپنی مرضی سے اس جگہ کو اچھا بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ جنگ زدہ ممالک ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، صومالیہ، اور یمن۔

مگر مسلمان اکثریت والے دوسرے ممالک کے لوگوں کے پاس مغربی دنیا جانے کا کیا بہانہ ہے؟

وہ اچھی زندگی کی تلاش میں اسلامی مقامات مقدسہ کیوں نہیں جاتے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات میرے پاس نہیں ہیں۔ اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں تو برائے مہربانی مجھے ضرور بتائیے گا۔



اور آخر میں۔ کوئی بھی شخص جو روز عنقریب آنے والی اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہے کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت نہیں کرسکتا۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپ بھی ایسے ہی سوچیے۔



زندگی رہی تو اگلے شو کے ذریعے پھر آپ سے ملاقات ہوگی۔